Recommend UsEmail this PageeGazetteAlislam.org
Blog
|
||||||||||
BBC Urdu service Blog by Hasan Mujtaba on persecution.
|
12:05, 31-05-2010 حسن مجتبٰی
زرد ستارہ پہنائے لوگ
گذشتہ جمعہ لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر دہشتگردانہ چڑھائيوں میں امریکہ میں اس ماہر امراض قلب ڈاکٹر کے بھی والد قتل ہوگۓ جنہوں نے لاہور جاکر کبھی طالبان میں اپنا اثر رکھنے والی جعمیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل رحمان کا علاج کیا تھا۔ لاہور میں کمانڈو طرز حملہ اتنا وسیع اور اندھا دھند تھا کہ امریکہ میں بسنے والی احمدی کمیونٹی کے کئی افراد کے دوست و اقارب لقمہ اجل بنے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی کمیونٹی کے ماننے والوں کو اتنی بیدردی اور سفاکی سے اسطرح شاید ہی مارا گیا ہو جسطرح احمدیوں کو مارا گیا ہے۔ احمدی پاکستان میں پاکستانی ریاست کی طرف سے ’ییلو سٹار‘ یا زرد ستارہ پہنائے ہوئے لوگ ہیں۔ بالکل ایسے جیسے جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کو پہنائے تھے۔ پہلے اس کمیونٹی کو لفظوں سے مارا گیا اور پھر ہتھیاروں کے منہ کھول دیے گئے۔ ٹی وی، ریڈیو، اخبارات، منبر، مساجد، مدرسے، ملاں، جنرل، پیر، فقیر، وزیر، سفیر، کبیر، سب اسی میں لگے ہوئے ہیں۔ میں نے بچپن میں پہلی بار جب ’سوشل بائیکاٹ‘ یا ’سماجی بائیکاٹ‘ کے الفاظ سنے وہ انیس سو چوہتر میں احمدیوں کے لیے چھپے بانٹے ہوئے اسٹکروں پر دیکھے جو میرے سندھ کے چھوٹے سے شہر میں لگائے گئے تھے جہاں صرف زیادہ تر فقط ایک احمدی خاندان اور اسکے تین بالغ مرد رہتے تھے۔ ریڈیو ساز اور گھڑی ساز چھوٹے زمیندار کنبے کا بڑا مربی احمدی اور ان کی ایک عبادت گاہ۔ جو میرے اسکول کی ہی مسجد تھی جس میں احمدی غیر احمدی ایک صف کھڑے نمازی اور ہر شام سکول میں ہونے والے کھیلوں میں لازمی حصہ لینا اور پھر اندھیرا ہونے سے ذرا پہلے مغرب کی نماز پڑھنا لازمی ہوا کرتے تھے۔ مسجد کا موذن پیش امام و خطیب شہر کے اسی اکلوتے کنبے کا بڑا احمدی مربی تھا۔ تمام شہر میں ایک معزز۔ لیکن سیم اور تھور میں گھرے دیوبندی مدرسے میں جو احمد پور شرقیے کا وہ ایف اے پاس مولوی اسد اللہ تھا وہ میرے محلے کے چھوٹے بچوں کو دو آنے، کٹ آؤٹ سٹیکر، اور بوٹ پالش کا برش دیکر اور کالے رنگ کا ڈبہ دے کر کہتا کہ شہر کی دیواروں پر لکھ کر آؤ ’مرزائی کافر ہیں۔‘ اب جو اس دن میں نے پاکستانی چینلوں پر کمسن عمر کے بندوق باز کو دیکھا تو مجھے احمد پور شرقیے کا مولوی اور وہ بچے یاد آ گئے۔ میں نے سوچا کہ پنجابی طالبان انیس سو چوہتر سے ہی بننا شروع ہوگۓ تھے۔ |